دیکھا وہ یہ ہیں ناصر الدین محمود غیاث الدین بلبن جلال الدین خلجی علاؤ الدین خلیجی معزالدین کیقاد
غیاث الدین تعلق اور محمد تغلق شامل ہیں ان بادشاہوں سے پہلے چار امراء کے یہاں ملازمت کی خسرو فوجی مہمات اور سفارتی سرگرمیوں میں بھی مصروف رہے
امیر خسرو کا مزاج بچپن ہی سے صوفیانہ تھا 1272 سن میں اپ نے حضرت خواجہ نظام الدین اولیا کے دست مبارک پر بیعت کی اپ کو اپنے مرشد سے بے انتہا محبت تھی یہاں تک کہ اپ فنانی الشیخ کے مقام پر پہنچے ہوئے تھے جب خواجہ نظام الدین اولیاء نے رحلت فرمائی تو امیر خسرو پر اس صدمے سے دیوانگی سی طاری ہو گئی اس صدمے میں اپ نے 1325 سن میں وفات پائی اور اپنے مرشدکی پائنتی میں دفن ہوئے
امیر خسرو کی شاعری
امیرخسرو کی اصل شہرت فارسی شاعری کی وجہ سے ہے اہل ایران ہندوستان کے فارسی گو شعراء کو خاطر میں نہیں لاتے تھے لیکن خسرو کی زبان کے ایرانی بھی قائل تھے اپ کو بچپن ہی سے شاعری کا شوق تھا اپ کی شاعری کی شہرت اس وقت سے شروع ہو گئی تھی جب اپ کی عمر 17 سال تھی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اپ کی شاعری میں پختگی اور مہارت پیدا ہوتی چلی گئی اپ کے اشعار کی تعداد لاکھوں سے تجاوز کر گئی آپ کو فارسی عربی سنسکرت ہندوی اور مقامی زبانوں پر عبور حاصل تھا امیر خسرو کے نام سے بہت سی پہلیاں کہاوتیں دوہے قوالیاں انمل کہہ مکرانی بھی منسوب ہیں اپ نے بہت سے راگ بھی ایجاد کیے موسیقی میں ستارہ اور طبلہ انہی کی ایجاد ہے اپ کے لکھے ہوئے شادی بیاہ کے گیت بھی بہت مشہور ہوئے
کاہے کو بیاہی بدیس رہے سن بابل مورے
اچھے بنے مہندی لان دے ہریالے بنے مہندی لان دے
اماں میرے بوا کو بھیجو ری کہ ساون آیا
چھاپ تلک سب چھین لی رے موسے نیناں ملا کے
افسوس کی بات ھے کہ امیر خسرو کی مادری زبان ہندوی میں لکھے ہوئے چار پانچ لاکھ اشعار میں سےچار یا پانچ سو ہی اشعار باقی رہ گے ہیں
شاعری میں اردو زبان کے لیے استعمال ہونے والی اصطلاح ریختہ بھی امیر خسرو ہی کی ایجاد ہے جس میں ایک مصرح ہندوی اور دوسرا فارسی کا ہوتا تھا شاعری میں اس کو خاص مقبولیت حاصل ہوئی میر سودا غالب کے زمانے تک ریختہ
شاعری اور غزل کے لیے استعمال ہوتا رہا
امیر خسرو کی تصانیف
امیر خسرو کی تصانیف کی تعداد 99 ھےجن میں تصنیف کے نام یہ ہیں
مثنوی مفتاح الفتوح مثنوی نہ سپہر مثنوی تعلق نامہ خالق باری نصاب بدیع العجائب افضل الفوئر مثنوی شیریں فرہاد مثنوی شہر آشوب وغیرہ شامل ہیں
امیر خسرو نے جو مثنویاں اور کتب لکھی ہیں ان کے مطالعہ سے بلبلن سےلے کر غیاث الدین تعلق تک کے زمانے کےحالات سامنے اجاتے ہیں اگر ہم اس عہد کی تاریخ مرتب کرنا چاہیں تو ان مثنویوں سے کافی مواد مل جاتا ہے ان مثنویوں میں جو واقعات بیان کیے گئے ہیں امیر خسرو اس کے چشم دید گواہ تھے وہ سلاطین وہ امراء کے درباروں سے وابستہ رہے اور اکثر مہموں میں خود بھی حصہ لیتے رہے
مثنوی مفتاح الفتوح میں جلال الدین خلجی کی تخت نشینی اور ابتدائی فوجی مہمات اور ان کے اثرات کا جائزہ لیا گیا خزائن الفتوح میں علاؤ الدین خلجی کے پہلے 16 سالوں کی مکمل تاریخ بیان کی گئی ہے مثنوی تعلق نامہ اس مثنوی میں سلطان محمد تغلق اور اس کے عہد کے واقعات بیان کیے گئے ہیں مثنوی نہ سپہر یہ مثنوی فارسی میں ھے اور مبارک شاہ خلجی کی سفارش پر لکھی گئی اس میں لوگوں کے طرز معاشرت ہندوستان کی اب و ہوا پھل پھول پرندوں مذاہب اور لوگوں کے رسم و رواج پر روشنی ڈالی گئی اس مثنوی کی زبان شیرین ہے لیکن انداز بیاں قدرے مشکل ہے امیر خسرو کو تاریخ پر عبور حاصل تھا انہوں نے ہندوستان میں اسلامی حکومت کے قیام سے لے کر اپنے زمانے کے واقعات کو جس طرح بیان کیا ہے اس کی مثال ملنا مشکل ہے
0 Comments