ٹیکسلا کا شمار پاکستان کے قدیم ترین شہروں میں ہوتا ھے یہ اسلام اباد سے 35 اور راول پنڈی سے 40 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے یہ شہر تینوں اطراف سے پہاڑوں میں گھرا ہوا ایک سر سبز وہ شاداب علاقہ ہے اس کے جنوب مشرق میں مارگلہ کی پہاڑیاں ہیں شمال مشرق میں بھی پہاڑی سلسلہ ہے اور مشرق میں خانپور ڈیم ہے اور ہزارہ کے پہاڑ ہیں ٹیکسلا کو اثار قدیمہ کے ماہر سر جان مارشل نے 1913 میں دریافت کیا تھا اس کا پرانا نام ٹیکشاسیلا تھا ٹیکسلا کا مطلب ھےکٹا پتھر کا شہراسے سنگتراشوں کا شہر بھی کہا جاتا ھے
ٹیکسلا کوسب سے پہلے سکندر اعظم نے 326 قبل مسیح میں فتح کیا تھا اور یہاں پر پانچ دن قیام کیا تھااس کے بعد موریہ خاندان آیا موریہ خاندان کے حکمران چندر گپت موریہ نے ٹیکسلا کو دارالحکومت بنایا اسکے بعد مختلف خاندان
آتےرہے جیسےموریہ کے بعداشوک شنگ کشن کنشک وغیرہ ہر دور میں ٹیکسلا کو خاص اہمیت حاصل رہی ھے
ٹیکسلا کا علاقہ مہا بھارت سے بھی قدیم ھے یہاں پر جو ابادی کے اثار دریافت ہوئے ہیں وہ موریہ دور سے زیادہ پرانے نہیں ہیں موریوں کے دورتک اس علاقہ کا نام ٹیکسلا تھا اس کے کھنڈرات عجائب گھر اور ریلوے اشٹیشن کے درمیانی رقبہ بھیڑ کے مقام پر ملے ہیں بھیڑ کی کھدائ کے دوران جو مکانات کے اثار ملے ہیں اس سے پتہ چلتا ہے کہ بعض مکانات خوشحال لوگوں کے تھے اور بعض غریب لوگوں کے تھے دونوں طبقے الگ الگ رہتے تھے ہر گھر میں 25 یا30 فٹ گہرا گڑ ھا ہوتا تھا جس میں غلاظت پھینک دی جاتی تھی شہر میں کوئی کنواں نہ تھا جسے پتہ چلتا تھا کہ شہر میں بھنگیوں اور اچھوتوں کا کوئی وجود نہ تھا لوگ
نالوں سے پانی بھر کر لاتے تھے ٹیکسلا کی کھدائی کے دوران جس تہذیب کے اثار ملے ہیں اسےگندھاراتہزیب کہتے ہیں گندھارا تہذیب کی جڑیں اگرچہ پشاور مردان سوات افغانستان وسطی ایشیا تک پھیلی ہوئی ہے لیکن ٹیکسلا کو گندھارا تہذیب کا مرکز کہا جاتا ہے چکنی مٹی اور پتھروں کو ملا کر جو مجسمے بنائے گئے انھیں گندھارا آرٹ کہا جاتا ھے گندھارا کے معنی خو شبو کے ہیں یہ سنسکرت زبان کا لفظ ھے یہاں کے لوگ زرد رنگ اور لمبے قد کے ہوتے تھے ان کا پیشہ کھیتی باڑی تھا یہ اپنی مذہبی تہوار بہت جوش و خروش سے مناتے تھے یہاں کے لوگ تہذیب و تمدن سے اشنا تھے یہ لوگ صفائی پسند تھا اور محنتی تھے یہاں پر مصری ایرانی اور یونانی تہزبیں پروان چڑھیں
آشوک اعظم جو ہندو مت کا پیروکار تھا اس نے ہندو مت چھوڑ کر بدھ مت قبول کیا اور ٹیکسلا میں بدھ مت کی بنیاد رکھی یہاں پر دو مذہب پروان چڑھےبدھ مت اور جین مت
ٹیکسلا کی کھدائی کے دوران مختلف قسم کے سکے مہریں گھریلو قسم کے استعمال کے برتن کھیتی باڑی کے الات اوزار مورتیاں زیورات وغیرہ یہاں پر ایسے مجسمے نکلے ہیں جن پر سچ کا گمان ہوتا ہے بعض ایسے سکے ملے ہیں جن پر کوئی تحریر کنندہ نہ تھی مگر ان کے اوپر چاند سورج کی تصویریں بنی ہوئی تھی بعض ایسی مورتیاں ملی ہیں جو اندر سے مٹی کی اور باہر سے چونے کی بنی ہوئی ہے سٹوپے اور مورتیاں ٹیکسلا کے چاروں طرف پھیلی ہوئی ہیں ٹیکسلا کی دوسری بستی سر کپ کہلاتی ہے اس کو دوسری صدی قبل مسیح میں یونانیوں نے اباد کیا تھا یہ شہر تقریبا تین صدی تک یونانیوں اور ابتدائی کشنوں کی راجدانی رہا ہے سر کپ کی کھدائ سے بھی یونانی سکے زیورات الات وغیرہ ملے ہیں بر صغیر میں شاہی محل کے سب سے پرانے اثار سر کپ ہی کے ہیں اس محل کی دیواریں سپاٹ ہیں اور یہاں پر کوئی نقش و نگار نہیں بنے ہوئے تھے ٹیکسلا سے سات میل کے فاصلے پر جولیاں کے کھنڈرات ہیں یہاں پر برصغیر کی پہلی قدیم ترین یونیورسٹی قائم ہوئی تھی اسے بت مت کے پیروکاروں نے ایک اونچے ٹیلے پربنایا تھا اس یونیورسٹی پر جانے کے لیے تقریبا 200 سیڑھیاں چڑھنی پڑتی ہیں اس یونیورسٹی میں طب نجوم فلسفہ ریاضی کی تعلیم دی جاتی تھی دور دور کے ممالک سے طلباء یہان علم حاصل کرنے کے لیے اتے تھے جن میں یونان اور چین جیسے ممالک بھی شامل تھے یہاں پر ایک اسمبلی ہال اور کمروں کے کھنڈرات ملے ہیں اس کے علاوہ انکی عبادت گاہوں کے کھنڈرات ملے ھیں اسکے علاوہ کھانے پینے کے برتن بھی ملے ھیں جس سے اس وقت کے لوگوں کی طرز رہائش کا پتہ چلتا ہے
ٹیکسلا میں ایک بڑا اور خوبصورت عجائب گھر بھی ھے جس کی بنیاد1928 میں سر مارشل نے رکھی تھی اس عجائب گھر میں ٹیکسلا سے نکلنے والے نواردات رکھے گئے ہیں جن میں مورتیاں مجسمے سونے چاندی کے زیورات کھیتی باڑی کا سامان برتن سکے مٹی کے برتن بچوں کے کھلونے ہتھیار اسلحہ جات لوہاروں کے اوزار لوہے پتھر اور مٹی سے بنا ہوا سامان وغیرہ شامل ہیں سیا ح اور طلباء اس عجائب گھر کو دیکھنے کے لیے دور دور سے اتے ہیں ٹیکسلا میں رکھی ہوئی اشیاء ہمارے ملک کا عظیم ثقافتی ورثہ ہیں اج بھی ٹیکسلا جائیں تو دکانوں پر رکھے ہوئے مٹی کے برتن اور دیگر سامان اج بھی قدیم ٹیکسلا کی یاد دلاتے ہیں
0 Comments