شیر کے سامنے شکار کی تقسیم
ایک شیر بھیڑیا اور لومڑی تینوں مل کر شکار کی تلاش میں نکلے بڑی تگ و دو کے بعد انہیں ایک ہرن ہاتھ لگا پھر ایک خرگوش ملا اس کے بعد ایک نیل گائے کا بھی شکار کیا جب شیر تین چار جانور مار چکا تو بھیڑیے سے کہا اج تیری عقل کا امتحان ہے ان کو خوب سوچ سمجھ کر تقسیم کر بھیڑیا بولا نیل گائے اپ کھالیں ہرن مجھے دے دیں اور خرگوش لومڑی کو عطا کر دیں
شیر نے کہا تو بڑا بے حیا بے ادب اور بد سلیقہ ہے تیری سزا موت ہے شیر غصے سے اٹھا اور ایک تھپڑ مار کر بھیڑیے کا کام تمام کر دیا شیر نے پھر لومڑی سے کہا اب میں تیری عقل ازماتا ہوں وہ ادب سے سر جھکا کر بولی حضور نیل گائے تو اپ ابھی کھا لیں ہرن کو رات کے لیے رہنے دیں اگر درمیان میں بھوک لگے تو خرگوش نوش فرمائیں شیر یہ سن کر بڑا خوش ہوا اور پوچھنے لگا تو نے یہ سلیقہ کس سے سیکھا لومڑی بولی بھیڑیے کے واقعے نے مجھے سبق دیا کہ بادشاہوں کے حضور خود غرضی اچھی نہیں یہ جواب دے کر وہ سلیقے سے پیچھے ہٹ کر بیٹھ گئی شیر کو یہ ادب اور سلیقہ بڑا پسند ایا اس نے کہا یہ تینوں شکار ہم نے تجھے دیے ہم اور مار لیں گے
لومڑی نے شیر سے جدا ہو کر سجدہ شکر ادا کیا کہ پہلے شیر مجھ سے سوال کرتا اور میں بھیڑ یہ جیسا جواب دیتی تو میرا بھی وہی حشر ہوتا جو بھیڑیے کا ہوا ہے
اس حکایت سے دو اخلاقی سبق حاصل ہوتے ہیں پہلا یہ کہ ہمیں خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ ہمیں اس نے اخری امت میں پیدا کیا اگلی امتوں پر عذاب نازل ہوئے جن سے سبق حاصل کر کے برائیوں سے بچ سکتے ہیں
دوسرا عقلمندی یہی ہے کہ دوسروں کی سزا سے سبق حاصل کریں خود غرض ادمی محروم رہتا ہے اور بے غرض اخلاق سے کام کرنے والے کی ہر جگہ عزت ہوتی ہے
حکایات رومی مولا نا جلال الدین رومی کی مشہور وہ معروف تصنیف مثنوی سے انتخاب
0 Comments