شیخ احمد خضرویہ کی سخاوت
شیخ احمد خضرویہ جہاں رسیدہ بزرگ اور بڑے دل والے تھے غریبوں کی امداد میں وہ قرض لینے سے بھی دریغ نہ کرتے تھے اور جب رقم وصول ہوتی تو پائی پائی کا قرض ادا کرتے تھے حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ بازاروں میں فرشتہ پکارتا ہے اے خدا سخی کو تو رزق پر رزق دے اور کنجوسوں کا مال تلف کر دے
جب شیخ موصوف مرض الموت میں گرفتار ہوئے تو ان کے سر چار سو دینار قرض تھا قرض خواہوں کو فکر ہوئ کہ یہ تو فوت ہو رہے ہیں چلو ان سے قرض وصول کریں شیخ کے پاس اس وقت کچھ نہ تھا قرض خواہوں نے سختی سے قرض کا تقاضا شروع کر دیا نا امیدی سے ان کے دل بھٹے جا رہے تھے اور وہ اپ سے بدگمان ہو رہے تھے شیخ نے کہا شیخ نے کہا ان بدگمانوں کو دیکھو کیا یہ جانتے نہیں ہیں کہ خدا 400 دینار نہیں بھیج سکتا اسی وقت ایک لڑکا حلوے کا خوان اٹھائے بیچنے کے لیے اگیا شیخ نے خادم کو اشارہ کیا کہ سارا حلوہ خرید لو اور قرض خواہوں کے سامنے رکھ دو
نصف دینار پر حلوے کا سودا ہو گیا شیخ نے انھیں اشارہ کرتے ہوئے کہا یہ حلوہ تمہارے لیے حلال ہے کھاؤ چنانچہ وہ فورا چٹ کر کے کھا گئے لڑکے نے شیخ سے کہا کہ اپ اس کی قیمت ادا کریں شیخ نے فرمایا لڑکے میں تو پہلے ہی قرضدار ہوں تجھے کہاں سے دوں میں تو مر رہا ہوں لڑکے نے ایک دم غصہ کھا کر برتن زمین پر دے مارا اور کہنے لگا یہ دیکھو صوفیوں کا حال لوگو اؤ دیکھو مجھ پر ظلم ہو رہا ہے مجھے تو استاد مار دے گا شور و گل سن کر خلقت جمع ہو گئی قرض خواہوں نے چلانا شروع کر دیا اور کہا شیخ ہمارا بھی مال اڑا گئے اور اس غریب لڑکے کو بھی لوٹ لیا اپ ان کی بکواس سن کر چپ تھے منہ لحاف میں چھپا کر لیٹے رہے
قرض خوار شور مچا رہے تھے اور لڑکا رو رہا تھا کہ ایک عقیدت مند کی طرف سے ایک خوان اگیا جس میں پورے 400 دینار تھے اور ایک کاغذ میں نیم دینار لپٹا ہوا تھا شیخ نے فرمایا اؤ آدم زادوں آو اور پائی پائی وصول کر لو خدا نے مجھے تم سے اور حلوہ فروش لڑکے سے سرخ رو کیا قرض خواہ بہت شرمندہ ہوئے اور پکارے اے اللہ یہ کیا بھید تھا ہم اندھے اور بہرے تھے ہمیں معاف کر دیں ہم نے بڑی فضول باتیں کی ہیں ہم نے اندھوں کی طرح لاٹھی چلا کر قندیلیوں کو توڑ دیا ہے ہم نے حضرت موسی علیہ السلام کے قصے سے بھی نصیحت نہیں پکڑی ہے اور خضر کی صحبت سے محروم ہو گئے
شیخ نے فرمایا میں نے تمہیں معاف کر دیا ھے یہ مشکل لڑکے کی گریازاری سے اسان ہوئی اسی کے رونے سے خدا کی بخشش کا دریا جوش میں ایا اور قرض ادا ہو گیا
مولانا جلال الدین رومی کی حکایت میں یہی بیان کیا گیا ہے کہ اگر ہم خدا کے حضور دلجمی اور گڑگڑا کر اپنی ضرورت بیان کریں تو ہماری دعا انشاءاللہ ضرور قبول ہوتی ہے
0 Comments