ایک سپیرا چوک میں بیٹھا ہوا سانپ کا تماشہ دکھا رہا تھا جب اس نے بین بجائ تو کالے رنگ کے سانپ نے نغمہ سننے کے لیے سر باہر نکالا یہ سانپ بہت خوبصورت تھا اس کا بدن نرم ملائم اور چکنا تھا ایک اور سپیرے نے جب اس سانپ کو دیکھا تو اس کے منہ میں پانی بھر ایا اور وہ اسے اڑانے کی فکر کرنے لگا اخر رات کو اس نے دیوار میں نقب لگا کر سانپ والی پٹاری اڑا لی اور خوشی خوشی اسے گھر لے ایا صبح سانپ کا مالک جب سو کے اٹھا تو اس نے دیکھا کہ اس کا سانپ غائب ہے یہ سانپ اس کے رزق کا ذریعہ تھا سانپ غائب ہونے کے بعد وہ زار و قطار رونے لگا اور اس نے اللہ تعالی سے دعا کی کہ جس نے میری دولت لوٹی ہے تو اسے اس کی سزا دے اور مجھے میرا حق دلا دے سانپ چور گھر آیاآس نے بڑی خوشی سے سانپ نکالا اور جونہی اسے پکڑنے لگا اس نے سپیرے کے ہاتھ پر کاٹ لیا یہ سانپ کے مستی کے دن تھے کاٹتے ہی سانپ کا زہر خون میں سرایت کر گیا وہ سپیرا منہ کے بل گرا اور مر گیا جب سانپ والے نے یہ سنا تو اس نے خدا کا شکر ادا کیا کہ میں بال بال بچ گیا اگر وہ سانپ اپنی مستی میں مجھے کاٹ لیتا تو میرا حال بھی سانپ چرانے والے سپیرے جیسا ہوتا اور میں بھی مر جاتا سانپ کا چوری ہونا میرے لے بہتر ثابت ہوا
اسی لئے کہتے ہیں انسان کو اپنے نقصان پر پریشان نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اس سے اس کی بلا ٹل جاتی ہے
0 Comments