مغل بادشاہ شاہجہان کو انجینیئر بادشاہ کہا جاتا ہے اس کا دور امن و امان کا دور تھا مالی لحاظ سے بھی حکومت مستحکم تھی شاہجہان بادشاہ کو انجینیر بادشاہ اس لیے کہا جاتا تھا کہ اس کو عمارات بنانے میں بہت دلچسپی تھی اس نے اپنے دور میں جو عمارات بنائیں وہ اج بھی قائم دائم ہیں اور خوبصورتی کے لحاظ سے اپنی مثال اپ ہیں مثلا تاج محل دہلی کا لال قلعہ دہلی کی جامع مسجد مسجد آگرہ لاہور کا شالمار باغ کشمیر اور اگر کے باغات وغیرہ شامل ہیں انہی میں ایک تخت طاوس بھی تھا جیسے بادشاہ نے اپنے بیٹھنے کے لیے بنایا تھا طاوس فارسی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں مور یعنی مور والا تخت
تخت طاوس کے دونوں بازوں پر دو مور بنے ہوئے تھے جن کی چونچ میں موتیوں کی لڑی تھی اور سینے پر سرخ یاقوت تھا پشت پر ہیرے جڑے ہوئے تھے جن کی مالیت لاکھوں میں تھی اس تخت کو بنانے میں سات سال لگے اس تخت کو بنانے والے کا نام سعید اے گیلانی تھا جنہیں بے بدل خان گیلانی بھی کہا جاتا تھا یہ تخت 12 ستونوں پر مشتمل تھا جو جو قیمتی ہیرے جواہرات کے بنے ہوئے تھے یہ تخت ساڑھے تین گز طویل ڈھائی گز چوڑا اور تین گز بلند تھا اس کی سب سے نمایاں خوبی اور نام کی وجہ سونے کے ستون تھے جن پر دو دو کی تعداد میں مور موجود تھے ہر دو موروں کے درمیان ایک درخت بنایا گیا تھا جو ہیرے جواہرات اور موتیوں سے سجا ہوا تھا تخت تک پہنچنے کے لیے تین سیڑھیاں بنائی ہوئی تھی جو کہ سونے کی بنی ہوئی تھی تخت کے چاروں طرف تختے تھے جس تخت پر بادشاہ سلامت اپنا بازو رکھتا تھا اس تخت کی قیمت 10 لاکھ روپے تھی اس تخت پر طرح طرح کے انمول اور حسین ترین ہیرے اور جواہرات جڑے ہوئے تھے جس میں ایک ہیرا 10 لاکھ روپے کا تھا تخت پر تیمور مرزا شاہ رخ مرزا الغ بیگ جہانگیر اور شاہ جہاں کے نام کندہ تھے اس تخت پر اس زمانے کے لحآظ سے ایک کروڑ روپے خرچ ہوا اس تخت پر لگے ہوئے ہیرے اور جواہرات کی چمک غیر ملکی سیاحوں کی انکھوں کو خیرہ کرتی تھی 1739 تک یہ تخت مغل بادشوں کے پاس رہا 1739 میں جب نادر شاہ نے ہندوستان پر حملہ کیا تو جاتے ہوئے اس تخت کو بھی اپنے ساتھ لے گیا کچھ مورخین یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ اصلی تخت طاؤس شاہ جہاں کے پوتے شاہ رخ کے پاس سے ٹوٹی پھوٹی حالت میں برامد ہوا اس سے جدید طرز کا تخت بنا لیا گیا جو اج بھی تہران کے نیو میوزیم میں موجود ہے
0 Comments