ممتاز محل کا اصل نام ارجمند بانو بیگم تھا وہ آصف خان کی بیٹی اور نور جہاں کی بھتیجی تھی وہ زیور تعلیم اور حسن سے مالا مال تھی وہ ایک وفادار بیوی تھی رحم دلی اور فیاضی اس میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی ممتاز محل کا انتقال سن 1630 میں ہوا
بادشاہ اپنی ملکہ سے بے انتہا محبت کرتا تھا ملکہ کی بے وقت موت نے اسے توڑ کر رکھ دیا اپنی اسی محبت کو امر کرنے کے لیے شاہجہاں نے تاج محل بنوایا
-:تاج محل کی تعمیر
ممتاز محل کا انتقال 1630 میں ہوا تھا تاج محل کی تعمیر 1631 تک شروع نہ ہو سکی 1632میں تاج محل کی تعمیر کا آغاز کیا گیا تاج محل کے بڑے دروازے کا 1647ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ مقبرے کا گنبد اس سن میں ختم ہوا تھا عبدالحمید لاہوری اور محمد صالح دونوں ہم عصر تھے دونوں ہی لکھتے ہیں کہ اس مقبرے پر 12 سال کام ہوتا رہا اور 50 لاکھ لاگت آئی یورپی مورخ تریورنیر1653 میں ہندوستان میں تھا اس کے بقول تاج محل پر 22 سال لگے اور تین کروڑ لاگت آئی
شاہجہان نے مقبرے کی حفاظت اور اخراجات کے لیے ایک لاکھ آمدنی سالانہ کی جاگیر وقف کر دی گئی تاج محل دریا جمنا کے کنارے پر واقع ہے اس کی تعمیر کے لیے ایران عرب اور ترکی کے علاوہ سلطنت کونے کونے سے ماہرین تعمیرات اور مماروں کو بلایا گیا اس محل کو بنانے کے لیے کئی نمونے یار کیے گئے مگر وہ تنقید اور ناپسندیدگی کی نظر ہو گئے اخری بڑی کوشش کے بعد ایک نمونہ ہاتھ لگا جس کے مطابق تاج محل بنایا گیا تھا اج محل کا اصل نمونہ لکڑی سے تیار کیا گیا تھا اس کے نگران الے کے لیے استاد عیسی اور عبدالکریم کا نام لیا جاتا ہے کہتے ہیں کہ اصل نمونہ استاد عیسی ایرانی تھا تبھی تاج محل کی تعمیر میں ایرانی رنگ نظر آتا ہے یہ بات غلط ہے کہ تاج محل کے ڈیزائن کو بنانے میں کسی اور بھی ماہر تعمیرات کا ہاتھ ہے تاج محل کے بارے میں یہ دلچسپ بات کہی جاتی ہے کہ جس شخص نے تاج محل کا نقشہ بنایا تھا بادشاہ نے اس کے ہاتھ کٹوا دیے تھے تاکہ وہ تاج محل جیسا دوسرا نمونہ نہ بنا سکے جس کے جواب میں استاد عیسی ایرانی جس نے نقشہ بنایا تھا کہتا تھا کہ مجھے امید تھی کہ بادشاہ میرے ساتھ ایسا سلوک کرے گا اس دیے میں نے چھت پر ایک جگہ ایسی بنا دی جہاں سے قطرہ قطرہ پانی ٹپکتا رہے گا اور کوئی بھی یہ سراخ نہیں لگا سکے گا کہ پانی کہاں سے ٹپکتا ہے اس طرح یہ چاند میں داغ والی بات ہو گئی اس کی یہ بات س ثابت ہوئی اور کوئی بھی مسئلے کو حل نہیں کر سکا کہ یہ پانی چھت سے کس جگہ سے ٹپکتا ہے
تاج محل کو بنانے کے لیے جو سنگ مرمر استعمال کیا گیا وہ راجستان سے منگوایا گیا اس سلسلے میں یہ آرائی آمدورفت کے لیے ایک ہزار ہاتھیوں کو بھی استعمال میں لایا گیا تاج محل جو کے دریا کے کنارے بنایا گیا تھا یہاں کی زمین پانی کی وجہ سے نرم تھی خشہ تھا کہ پانی کی وجہ سے تاج محل کی بنیادیں کمزور نہ ہو جائیں اس کا حل مغل انجینیئر نے یہ نکالا کہ زمین میں کہیں کنویں گہرائی تک کھو دیے گئے جہاں پر پانی ختم ہو جاتا اس کنویں کو بعد میں پتھروں سے بھر دیا جاتا اس طرح زمین کو ایک ساتھ کر دیا گیا اس کے اوپر تاج محل کا ڈھانچا کھڑا کر کے اس کے بعد اس کی تعمیر کی گئی اس محل میں جو خوبصورت نقشیں نگاری اور گلکاری کے لیے جو گلو استعمال کیا گیا اس میں سنگ مرمر کا پاؤڈر شیرہ اور لیموں کا رس شامل تھا تاج محل کے لیے کروڑوں اینٹوں کا استعمال کیا گیا اس عمارت کا اتا 186 مربع فٹ ہے پوری عمارت 18 فٹ بلند ہے اور 33 مربع فٹ چبوترے پر بنائی گئی ہے گنبد پر قطر 58 فٹ اور بلندی 21 فٹ ہے ایسے عمارت نہ کبھی بنی ہیں اور نہ اس کا تصور کیا جا سکتا ہے
-:تاج محل کی انفرادیت
آج سے تقریبا 400 سال پہلے جب سائنس اور ٹیکنالوجی نے اتنی ترقی نہیں کی تھی تاج محل کی تعمیر لوگوں کو ورتا حیرت میں ڈال دیتی ہے اس عمارت کی تزین اور رائش اس کا نمونہ مغل انجینیئر عمرو قابلیت اور محنت کا منہ بولا ثبوت ہے جب اس عمارت میں داخل ہوتے ہیں تو اس کا دروازہ بڑا نظر اتا ہے مگر تاج محل میں داخل ہونے کے بعد یہ چھوٹا محسوس ہوتا ہے اس کے ارد گرد چار مینار ہیں جو باہر کی طرف وہ جھکے ہوئے ہیں سفید سنگ مرمر کے قیمتی پتھر کو تراش کر اسے بنایا گیا ہے اور سب سے عجیب بات یہ ہے کہ تاج محل دن رات میں چار رنگ بدلتا ہے سورج نکلنے سے پہلے کالے رنگ کا نظر اتا ہے سورج نکلنے کے بعد پیلے اور گلابی رنگ کا نظر اتا ہے دوپہر کے بعد سفید رنگ کا ہو جاتا ہے سورج کے گروپ ہونے کے بعد گولڈن رنگ کا ہو جاتا ہے چاند ہی چاندنی میں جب چاند کی کرنیں اس حسین عمارت پر پڑتی ہیں تو یہ عمارت سنہری رنگ کی دکھائی دیتی ہے
-:شاہ جہاں کی اسیری اور انتقال
جب شاہ جہاں کو اس کے بیٹے اورنگزیب نے نظر بند کر دیا تھا تو اس کی آنکھیں ہر وقت تاج محل کو دیکھتی رہتی تھی جب بادشاہ کا انتقال ہوا جب بھی اس کی نظریں تاج محل پر ہی تھی بادشاہ شاہجہان کو ممتاز محل کے احاطے میں ہی دفن کیا گیا
تاج محل دو دلوں کی محبت اور وفا داریوں کا منہ بولتا ثبوت ہے یورپی مورخ ہیول (Havell) تاج محل کی خوبصورتی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتا ہے
"یہ حسن کا مجسمہ اور دائمی مسرت کا سامان ہے ہندوستان کی تعمیر تعریف میں نہ ایسی عمارت کبھی کسی نے بنائی ہے اور نہ ہی اس کا تصور کیا جا سکتا ہے بلا شبہ تاج محل ایک خواب ہے جسے سنگ مرمر میں ڈھال دیا گیا ہے"
0 Comments