کٹاس راج مندر



 کٹاس راج مندر ضلع چکوال کی تحصیل   چوآن سیدن شاہ میں  واقع ہے چکوال سے اس کا فاصلہ 30 کلومیٹر اور کلر کار سے تقریبا 24 کلومیٹر دور ہے یہ سرسبز اور وسیع علاقے پر پھیلا ہوا ہے اس کو دیکھنے کے لیے گھنٹوں درکار ہوتے ہیں کٹاس سنسکرت  زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں روتی ہوئے انکھ کٹاس راج کے مندر میں تین تہذیبیں پائی جاتی ہیں بدھ مت ہندو اور سکھ اس مندرکی تاریخ بہت پرانی ہے بھارت کی قدیم ترین کتاب مہا بھارت میں بھی اس کا ذکر ہوا ہے یہ مندر پانچ ہزار سال پرانا ہے کہا جاتا ہے کہ پانڈووں نے اس مندر کو اباد کیا تھا کورووں۔نے  چالاکی سے پانڈوں کو 12 سال کے لیے جلا  وطنی پر مجبور کر دیا تھا پانڈوں  پانچ بھائی تھے انہوں نے یہ عرصہ جنگل میں گزارا اور اس مندر کو اباد کیا

یہ مندر ایک یونیورسٹی کی حیثیت رکھتا تھا جہاں پر دور دراز سے لوگ سنسکرت  سیکھنے اتے تھے مشہور مسلم جغرافیہ دان  ہیت دان اور ماہر فلکیات ابو ریحان البیرونی نے یہیں سے سنسکرت زبان سیکھی اور اپنی مشہور کتاب کتاب الہند لکھی جو ہندوؤں کے رسم و رواج پر بہترین کتاب مانی جاتی ہے اور یہیں پر بیٹھ کرزمین کا قطر معلوم کرنے  کا فارمولا دریافت کیا

ہندوؤں  کے چاروں  وید بھی یہیں  لکھے  گئے جن کے  نام یہ ہیں رگ وید سام وید اتھر وید اور یجر وید یہ ان کی آسمانی  کتابیں  ہیں 

سکھوں کے نزدیک بھی یہ متبرک جگہ ہے کیونکہ ان کے مذہبی پیشوا بابا گرو نانک نے بھی کچھ عرصہ یہاں قیام کیا تھا  

یہاں  پر کل ملا کر 52 مندر ہیں کٹاس راج کے سامنے سڑک پار کر کے غاریں ہیں جن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ بھی پانڈووں نے بنائے تھے جب ہم گیٹ سے گزر کر کٹاس راج مندر میں داخل ہوتے ہیں تو سب سے پہلے شیو جی کے نام کی تختی نظر اتی ہے اس سے اگے ایک تالاب ہے جس کے متعلق کہا جاتا  ھے جب دیوتا شری شیوجی کی بیوی پاورتی کا انتقال  ھوا  تو ان کی انکھوں سے انسو جاری ہو گئے جس سے  دو تالاب بن گئے ایک اجمیر میں  ھے اور  دوسرا کٹاس راج میں ھے ہندوؤں کا عقیدہ ہے کہ اس تالاب کا پانی پاک ھے جو اس تالاب میں اشنان کرتا ہے وہ گناہوں سے پاک ہو جاتا ہے



 یہاں پر  شری شیوجی کا مندر ھے جو کہ سب سے قدیم ھے یہ پانچ ہزار سال سے زیادہ پرانا ھےمندر میں شری شیوجی کی مورتی  ھے ہندو یہاں پر دودھ چڑھاتے ہیں اور ناریل پھوڑتے ہیں  بھجن پڑھتے ہیں اور اپنی  مذہبی رسومات سر انجام دیتےہیں یہاں پر بارہ دری بھی ھے جس کے چاروں طرف اندر داخل ہونے کے لیے تین تین دروازے ہیں   ان دروازوں کی تعدادبارہ  ہے جس کی وجہ سے اس کا نام بارہ دری پڑ گیا یہ ایک ہوادار جگہ ھے سامنے ایک راجہ کی حویلی ھے جس کانام سندر ناتھ تھا

پانڈووں  نے یہاں  پر سات مندر بنائے جہاں پر یہ رہتے  تھےان مندروں کی  دیواریں  چونے سے بنائ گئی  تھی کچھ مندر ایسے ہیں جن کے باہر چونا استعمال کیا گیا ہے اور اندر مٹی استعمال کی گئی ہے اس کے علاوہ کچھ اور بھی مندر مشہور ہیں جیسے ہنومان کا مندر رام چندر کا مندر یشوا مندر خاص طور پر نمایاں ہیں ان میں ہنومان کا مندر خوبصورتی میں اپنی مثال اپ ہے اس کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اگر باہر گرمی ہے تو اندر جا کر ہمیں ٹھنڈک کا احساس ہوتا ہے اور سردیوں میں اندر گرمی محسوس ہوتی ہے مندر کی دیواروں  پر خوبصورت پینٹنگ کی گئ ھے جو کہ مغلیہ دور میں کی گئی اس کے علاوہ بہت سے دوسرے مندر بھی ہیں جہاں پر بدھ مت اور ہندو عبادت کیا کرتے تھے ایک شیش محل ہے جہاں پر سانپ کی پوجا کی جاتی تھی اور یہاں  پر سانپوں کے مجسمے بھی بنے ہوئے  ہیں 

سکھ جرنیل ہری سنگھ  نروہ کی بنائ ہوئی  ایک حویلی بھی ھے جو رنجیت سنگھ کے دور میں 1801 میں  بنائ گئی  حویلی میں بڑا سارا صحن ہے جس کے ارد گرد کمرے بنے ہوئے ہیں یہاں پر مردوں اور عورتوں کے لیے علیحدہ علیحدہ کمرے تھے یعنی ایک حصہ زنان خانہ کہلاتا تھا اور دوسرا مردان خانہ کہلاتا تھا کچھ دیواروں میں سوراخ کیے گئے تھے اور وہاں پر توپیں لگائی  جاتی تھیں 

چینی سیاح ہیون تسانگ نے اشوک کے زمانے  کا سٹوپا دریافت کیا اس کی بلندی 200 فٹ تھی سٹوپا بدھ مت کی مقدس جگہ کو کہتے ہیں جہاں پر یہ لوگ اپنی عبادت کیا کرتے تھے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کچھ عمارتیں اپنی اصل شکل کو برقرار نہ رکھ سکی اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئی ہیں جن میں یہ سٹوپا بھی شامل ہے انگریزوں نے اپنے دور حکومت میں یہاں پر ایک پولیس اسٹیشن بھی قائم کیا تھا بعض مندر اونچائی پر ہیں جہاں کافی سیڑھیاں چڑھ کر جانا پڑتا ہے کٹاس راج کو اگر مندروں  کا شہر کہا جائے تو غلط نہ ہوگا یہ ہمارا ثقافتی ورثہ ہے  تاریخ سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے یہ ایک خوبصورت جگہ ہے  جو ان کی معلومات میں گراں قدر اضافہ  کرتی ھے 

Post a Comment

0 Comments