اندلس جس کا موجودہ نام سپین ھےیہاں پر مسلمانوں نے ساڑھے سات سو سال حکومت کی اموی شہزادہ عبدالرحمن الدخل نے اندلس میں اسلامی سلطنت کی بنیاد رکھی جس وقت یورپ جہالت کی گہرائیوں میں ڈوبا ہوا تھا اس وقت اندلس ثقافت تعمیرات سائنس صنعت و حرفت اور زراعت کے میدانوں میں بام عروج پر پہنچا ہوا تھا قرطبہ اموی خلفائے اندلس کا دارالخلافہ اور اپنے زمانے کا تہذیبی مرکز تھا دسویں صدی عیسوی میں جب اہل یورپ لکڑی کے بنے ہوئے مکانات میں رہتے تھے تنکوں سے فرش ڈھانپتے تھے ان کی زبان ترقی یافتہ نہ تھی بلکہ پورے یورپ میں چند پادری ہی لکھنا پڑھنا جانتے تھے اہل یورپ تہذیب سے عاری تھے اس وقت کرتبہ میں ایک اعلی وہ عرفہ تہذیب موجود تھی
قرطبہ کے متعلق ایک عرب مورخ نے یوں کہا ھے
قرطبہ اندلس کی دلہن ھے جس کے پاس وہ تمام خوبصورتی اور زیورات ہیں جو نگاہوں کو مسرور اور انکھوں کو چندھا دیتے ہیں بہت سے سلاطین نے مل کر اس کے لیے شہرت کا تاج بنایا ہے اس کے گلے کا ہار ان موتیوں سے بنا ہے جو اس کے شعرا نے زبان کے سمندر سے چنے ہیں اس کا لباس علم سے بنا ہے جس کو اس کے ماہرین سائٹسٹ نے نہایت عمدگی سے سیا ھےاور تمام علوم وفنون کے ماہرین اس لب
کے موتی ہیں
قرطبہ جن وجوہات کی وجہ سے مشہور تھا وہ یہ ہیں
قرطبہ کا شہر
قرطبہ کا شہر پتھر کی مضبوط دیواروں سے گھرا ہوا تھا شہر کی وسعت دس مربع میل تھی اور سو مربع میل پر واقع تھا اس وسیع شہر میں گندگی کا کہیں نام و نشان نہ تھا صاف خوبصورت گلیاں شہر کے مکینوں کے حسن ذوق کا پتہ
دیتی تھی
دیتی تھی
دریا اور باغات
قلعے کی دیواروں کے ساتھ دریائے گاو ایسٹ تھا کئی مساجد دریا کے کنارے پر تعمیر کی گئی تھی دور دور سے نادر وہ نایاب پھول باغات کی خوبصورتی کے لیے منگوانے تھے عبدالرحمن نے وطن کی یاد تازہ کرنے کے لیے کھجور کا درخت شام سے منگوا کر کاش کروایا تھا ہشام کے باغ دمشق کی نقل میں ایک باغ بنوایا گیا تھا جس میں دنیا کے نایاب پھل درخت اور بیلیں لگائی گئیں ان باغات کی نہایت اہم خصوصیات وہ ترتیب وہ نظم تھا جو درختوں کی کاشت کے وقت ملحوظ رکھا جاتا تھا آبپاشی کا نظام بھی اپنے بنانے والوں کی کاراگری تخلیقی ذہن وہ حسن ذوق کا ائینہ دار تھا سکے کے پائپ کے ذریعے پہاڑ سے پانی لایا جاتا تھا اور اس پانی کو جھیلوں ذخیروں تالابوں اور مرمری چشموں میں رکھا جاتا تھا
محلات
اموی خلفائے اندلس نے جو محلات تعمیر کروائے تھے ان پر جنت ارضی کا گمان ہوتا تھا ان محلات کے ساتھ باغ بھی تھے محل کے دروازے باغات میں کھلتے تھے البتہ دریا کے کنارے ایک دروازہ جامع مسجد میں کھلتا تھا جو خلیفہ کے مسجد جانے کے لیے مخصوص تھا مسجد جانے کے لیے ایک سرے سے دوسرے سرے تک گالچے بچھے ہوئے تھے
جامع مسجد قرطبہ
جامع مسجد قرطبہ کی تعمیر 784ء میں عبدالرحمن التخل نے شروع کی پہلے اس مسجد کا کچھ حصہ عیسائیوں کے پاس تھا اور کچھ حصہ مسلمانوں کے پاس تھا عبدالرحمن نے بھاری قیمت ادا کر کے وہ حصہ جو عیسائیوں کے پاس تھا اپنی ملکیت میں لے لیا اور یہ زمین مسجد کے لیے وقف کرتی اس کے عہد میں 80 ہزار اشرفی اس مسجد پر خرچ ائی اس مسجد کی تکمیل 793 سن میں ہشام ہشام کے دور میں ہوئی اس مسجد کی دیواروں اس ستنوں پر سونے کا پانی چڑھایا گیا اس مسجد کے 21 دروازے تھے جن پر چڑھی ہوئی پیتل کی چادر انکھوں کو چندھا دیتی تھی مسجد میں ایک ہزار 93 ستون تھے ممبر ہاتھی دانت اور لکڑی کا بنا ہوا تھا جس میں سونے کے کیل لگائے گئے تھے مسجد کے صحن میں چار فوارے تھے جس کا پانی قریب کی پہاڑی سے اتا تھا عیسائی گرجوں کی گھنٹیوں کی دھات سے لالٹین بنا کر مسجد کو منور کیا گیا تھا رمضان کے مہینے میں مسجد میں شب و روز چراغاں ہوتا تھا جس پر 50 سال ہزار موبتیاں کر جاتی تھی مسجد کی چھت ستونوں پر قائم تھی اور اس کی ترتیب اس وجہ پر بنی ہوئی تھی کہ تقاطہ سے دونوں طرف متواضع راستے بن گئے تھے چھت زمین سے دو گز کے قریب بلند تھی جس کی وجہ سے مسجد میں اندھیرا نہ تھا دیواروں پر قرانی ایات کندہ تھی مسجد کے محراب کو کھجور کے جھونتے ہوئے درخت سے تشبیہ دی جاتی تھی وہ چھت کا ڈیزائن شہد کی مکھیوں کے چھتے سے ملتا جلتا تھا ایک وقت ایسا ایا جب مسلمانوں کی حکومت ختم ہو گئی عیسائیوں نے مسجد پر قبضہ کر کے اسے کلیسیا بنایا مسلمانوں کا داخلہ کافی عرصے تک یہاں پر ممنون رہا سن 1931 یا 1932 میں جب علامہ اقبال مسجد کرتبہ گئے تو انہوں نے پادری کی اجازت سے ایک عرصے بعد مسجد میں اذان دی اور دو رکعت نفل پڑھے اج بھی یہ مسجد اپنے زائرین کے لیے ایک کشش رکھتی ہے
قصر الزہرا
عبدالرحمن سوم نے کرتبہ کے قریب ایک شہر اباد کیا جس کا نام الزہرا رکھا گیا یہ شہر جبر الروس کے دامن میں واقعہ تھا اب اس کا نام و نشان باقی نہیں رہا یہ شہر کرتبہ ہی کا ایک حصہ تھا کچھ مورخ کہتے ہیں کہ عبدالرحمن سوئم نے اپنی بیوی کے نام پر اس کا نام الزہرا رکھا تھا اور کچھ کہتے ہیں کہ عبدالرحمن نے دفاعی اور سفارتی لحاظ سے اس شہر کی تعمیر کی بہرحال یہ شہر اپنی خوبصورتی کے لحاظ سے بے مثال تھا خلیفہ نے 25 سال تک اپنی آمدنی کا ایک تہائی خرچ کر کے شہر کی تعمیر کی اس کا بیٹا مزید 15 سال تک اس شہر کی عظمت میں اضافہ کرتا رہا اس کی تعمیر میں 10 ہزار مزدور 3 ہزار باربرداری کے جانور اور 15 ہزار کاریگر روزانہ کام کرتے تھے قیمتی پتھر قسطنیطہ سے منگوایا گیا تھا چھ ہزار پتھر روزانہ کاٹے اور پالش کیے جاتے تھے دروازوں پر لوہے اور پیتل کے خول چڑھائے گئے تھے اس کے ہال کی چھت سنگ مرمر اور سونے سے بنی ہوئی تھی
اس عمارت میں 4ہزار 3سو ستون قیمتی سنگ مرمر کے نہایت عمدہ تھے قصر کے دالانوں میں سنگ مرمر کا فرش جس میں ہزاروں طرح کی گل کاری تھی بچھا ہوا تھا دیواروں پر سنگ مرمر کی استرکاری تھی شہتیر اور چھت
کے تختے صنوبر کی لکڑی کے اور نہایت بییش قیمت اور نازک تھے بعض دالانو میں خوشنما افوارے صاف اور پاکیزہ پانی کے پھوٹ رہے ہوتے تھے ان کی دھاریں مختلف شکل شکل کے سنگ مرمری حوضوں پر گر رہی ہوتی تھی القصر کے سامنے بڑے بڑے باغ تھے جن میں کہیں تو میوے کے درخت تھے اور کہیں پر پودے تھے جن کے ارد گرد پانی کے چشمے روا تھے انہی باغوں میں شاہی حمام تھے جو سنگ مر مر کے تھے او ران پر ریشمی اونی اور سوتی قالین بچھے ہوئے تھے جن پر پھول پودے بنے ہوئے تھے جو بہت خوبصورت لگتے تھے یہ شہر جلد ہی علم و فضل اور شاہی شان و شوکت کا مرکز بن گیا شاہی دربار میں ان شعراء وعلماء کا ہجوم رہنے لگا صرف شاہی ملازمین کی تعداد پونے 14 ہزار تھی اس کے علاوہ تقریبا ساڑھے تین ہزار خواجہ سرا حرم کی حفاظت کے لیے موجود تھے حرم کی خواتین کی تعداد ہزاروں میں تھی ان سب کے لیے 13 ہزار پونڈ گوشت روزانہ پکتا تھا
اس شہر کے باشندے بھی عظیم تھے انتہائی مہذیب نرم و عقلمند خوش ذوق
نفیس الطبع تھے اہل یورپ ان کی عادات دیکھ کر مرعوب ہو جایا کرتے تھے ان کا کام لباس سواری کے گھوڑے سب ان کی بلند ذوق کے ائینہ دار تھے ماحول نہایت علمی تھا پروفیسر ٹیچرز اور طلبہ دور دراز سے حصول تعلیم کے لیے قرطبہ اتے تھے
آبادی کا ایک بڑا حصہ تھے علم فلکیات جغرافیہ کیمیا اور تاریخ میں بھی کافی ترقی ہو چکی تھی شعر و سخن کا ذوق عام ادمیوں میں بھی پایا جاتا تھا صنعت بھی زوروں پر تھی قرطبہ شہر میں ایک لاکھ تیس ہزار پارچہ باف انگنت برتن ساز اور بے شمار نقاش تھے شیشے پیتل لوہے اور ہاتھی دانت کی صنعت نے کافی ترقی کر لی تھی جب عیسائیوں نے قرطبہ پر قبضہ کیا تو اس کی ساری خوبصورتی کو ختم کر دیا تھا قرطبہ ایک ایسا دارالخلافت تھا جس پر جتنا بھی فخر کیا جاتا کم تھا یورپ میں اج بھی قرطبہ مسلمانوں کی عظمت کی علامت سمجھا جاتا ہے
0 Comments