فلسطین جل رہا ھے پارٹ

حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کہ زمانے سے بیت المقدس مسلمانوں کے پاس تھا اپ نے عیسائیوں کو مکمل مذہبی ازادی دے رکھی تھی وہ ازادانہ بیت المقدس ا سکتے تھے اور اپنی مذہبی رسومات ادا کرتے تھے ایک ہزار99 عیسوی میں صلیبی افواج نے یروشلم پر حملہ کیا اور پانچ ہفتوں کی مسلسل محاصرے کے بعد 70 ہزار کے قریب مسلمان مرد عورتوں اور بچوں کو بے دریغ شہید کیا اور بیت المقدس پر قبضہ کر لیا 1187 کو صلاح الدین ایوبی نے صلیبی افواج کو شکست دے کر بیت المقدس پر قبضہ کر لیا صلاح الدین ایوبی اور عیسائیوں کے درمیان 14 سال تک جنگ ہوتی رہی بیت المقدس پر مسلمانوں کے قبضے کے بعد صلاح الدین ایوبی نے عیسائیوں کو مکمل مذہبی ازادی دی
پہلی جنگ عظیم میں یہودیوں نے برطانیہ کے اتحادیوں کی شرط پر مدد کی پیشکش قبول کی کہ یہودیوں کو رہنے کے لیے ایک چھوٹا علاقہ دیا جائے اس طرح برطانیہ نے سن 1917 میں جنگ کے اختتام پر فلسطین میں یہودی حکومت کے قیام کا وعدہ کیا جنگ عظیم کے بعد فلسطین کو برطانیہ نے اپنی نگرانی میں لے لیا اس طرح دنیا کے یہودی فلسطین پہنچنا شروع ہو گئے دوسری جنگ عظیم کے بعد یہودیوں کو برطانیہ سے زیادہ امریکہ کے سرپرستی حاصل ہو گئی برطانیہ نے فلسطین میں اپنی پوزیشن کمزور دکھی تو یہ مسئلہ اقوام متحدہ میں لے گیا اقوام متحدہ نے یورپین ممالک کا ساتھ دیتے ہوئے فلسطین کی تقسیم کا فیصلہ کیا اور جانبداری سے کام لیتے ہوئے زیادہ علاقہ یہودیوں کے حوالے کر دیا اس تقسیم کے تحت کہتے ہیں فلسطین کا 55 فیصد رقبہ صرف 33 فیصد یہودیوں کے حوالے کر دیا گیا جبکہ 45 فیصد  حصہ 60 فیصد یہودی  ابادی کو دیا گیا حالانکہ یہودیوں کے پاس صرف چھ فیصد رقبہ تھا یہودیوں نے صرف اسی پر اکتفا نہ کیا بلکہ تشدد کے ذریعے عربوں کو نکالنا شروع کر دیا اور ان کی زمینوں پر زبردستی قبضہ کیا مشہور مورخ پروفیسر ٹائی بین نے یہودیوں کے مظالم کا تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ یہودیوں نے جس طرح عرب عورتوں بچوں اور مردوں کا قتل کیا وہ ہٹلر  کے زمانے سے کسی طرح بھی کم نہ تھا  یہودیوں کے اس علاقے کا نام اسرائیل رکھا گیا یہ فلسطین کے درمیان میں واقع ہے 17 مئی 1948 کو اسرائیلی ریاست کے قیام کا اعلان ہونے کے بعد چھ لاکھ سے زائد عربوں کو فلسطین چھوڑنے پر مجبور کر دیا گیا فلسطین کے مسئلے پر اب تک عرب اسرائیل کے درمیان چار جنگیں ہو چکی ہیں
عرب اسرائیل  جنگ 1948ءعربوں نے یہ جنگ یہودیوں  کے خلاف لڑی لیکن اپس میں اتحاد نہ ہونے کی وجہ سے عربوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا اس طرح اسرائیل نے فلسطین کے 70 فیصد رقبے پر قبضہ کر لیا
عرب اسرائیل جنگ 1956ءمصر نے نہر سویز کو قومی ملکیت میں لینے کا فیصلہ کیا تو اسرائیل برطانیہ اور  فرانس نے اچانک مصر پر حملہ کر دیا بعد میں روس کی دھمکی سے گھبرا کر علاقہ خالی کر دیا
عرب اسرائیل جنگ 1967ء میں اسرائیل  مصر شام  اور اردن کے درمیان لڑائی  شروع  ھو گی اس میں اسرائیل نے بیت المقدس کے علاوہ عربوں  کے 25 ہزار مربع میل حصہ پر قبضہ کر لیا جس میں سنائی کا علاقہ بھی شامل تھا اس قبضے کی وجہ سے نہر سویز بھی بند ہو گئی 1969 میں یہودیوں نے مسلمانوں کے قبلے اول مسجد اقصی کو بھی اگ لگا دی تھی
عرب اسرائیل جنگ 1973ء اکتوبر سن 1973 میں مصر اور شام نے اسرائیل پر حملہ کر دیا   اور نہ صرف سات دن کے اندر نہر سویز پر مکمل کنٹرول حاصل کر لیا بلکہ عرب افواج نے اسرائیل کو 30 کلومیٹر پیچھے دھکیل دیا
اسرائیل  نے فلسطین میں مسلمانوں کے لیے زمین تنگ  کردی مسلمان ایک عرصے سے اپنے ہی ملک میں اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں ازادی کی اس تحریک میں فلسطینی مجاہدہ لیلی خالی کا ذکر کرنا ضروری ہے جس نے 25 سال کی عمر میں 29 اگست سن 1969 میں اسرائیل کا طیارہ اغوا کر کے بہادری اور حب الوطنی کی ایک نئی تاریخ رقم کی اسرائیل وقتا فوقتا فلسطین کے مسلمانوں پر بمباری کرتا رہتا ہے مگر سات اکتوبر کو اسرائیل نے غزہ پر بمباری کر کے ہزاروں مسلمانوں جن میں بچے عورتیں مرد بوڑھے سب شامل ہیں ان کو شہید کر دیا
غزہ جس کی لمبائی 17 مربع میل ہے یہ فلسطین کے جنوب  میں واقع ہے یہاں پر اسرائیل نے ظلم و ستم کا وہ بازار گرم کیا جس کی مثال دنیا میں ملنا  مشکل ہے اسرائیل جس کو برطانیہ اور امریکہ کی پشت پناہی حاصل ہے اس نے طاقت کے نشے میں مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی ہزاروں مسلمانوں کو شہید کر دیا لاکھوں مسلمان بے گھر ہو گئے اور ہزاروں کی تعداد میں لوگ زخمی ہوئے یہاں کے مسلمانوں کا حال دیکھ کر دل خون کے انسو روتا ہے ہزاروں شیر خوار بچے اس دنیا سے چلے گئے اور بہت سے بچے ایسے ہیں جو ابھی بھی اپنے ماؤں کا انتظار کر رہے ہیں مگر انہیں نہیں پتہ ان کی مائیں تو منوں  مٹی تلے جا سوئی ہے ان کی انکھیں اج بھی اپنے پیاروں کی رات تک رہی ہیں اسرائیل نے خاندان کے خاندان شہید کر دیے مسلمانوں کے لیے نہ سرپرچھت رہی نہ پاؤں کے نیچے زمین وہ بے یار و مددگار ہو گئے اور  انھیں  نہیں پتہ کہ کون سا لمحہ انہیں موت سے ہمکنار کر دے اسرائیل نے کربلا کی تازہ کرتے ہوئے مسلمانوں پر پانی تک بند کر دیا یہاں کے مسلمانوں پر زندگی تنگ کر دی وہ ہر نعمت سے محروم ہو گئے ان کے پاس نہ تو خوراک ہے اور نہ رہنے کے لیے گھر ہے مگر ان کے جذبے حریت اور اللہ پر اعتقاد کا جذبہ قائم ہے جب ایک  دس بارہ سال کے بچے کا بغیر بے ہوش کئے اپریشن کیا گیا تو وہ رونے کے بجائے قران پاک کی ایات کی تلاوت کرتا رہا یہی وجہ جذبہ ھے جس کی وجہ سے فلسطین کے لوگوں نے کبھی اسرائیل کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے  اس طرح اسرائیل نے مسلمانوں پر وہ ظلم کیا ہے کہ جسے نہ انکھ
دیکھ سکتی ھے  اور نہ قلم لکھ سکتا ہے مسلمان اپنے پیاروں کے لاشیں اٹھا اٹھا کر غم سے نڈھال ہے مگر ہمارے مسلمان حکمران اسرائیل کے خلاف کوئی عملی اقدام کرنے کی بجائے صرف قراردادوں تک محدود ہے پوری دنیا میں اسرائیل کے خلاف جلوس نکالے جا رہے ہیں اسرائیل فلسطینی مسلمانوں کی نسل کشی پر تلا ہوا ہے اسرائیل فلسطین میں بےدریغ  فاسفورس بمبوں کا استعمال کر رہا ہے اس نے کوئی ہسپتال کوئی سکول کوئی عمارت نہیں چھوڑی  بہت سے لوگ عمارتوں کے ملبوں کے نیچے دبے ہوئے ہیں یہاں کی بجلی منقطع کر دی  گئے مگر افرین ہیں یہاں کے ڈاکٹروں پر جنہوں نے ایسے سے مشکل حالات کے باوجود اپنے لوگوں کو چھوڑنے سے انکار کر دیا ان مشکل حالات کے باوجود وہ اپنے لوگوں کا علاج کر رہے ہیں ہر تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد فلسطین  کے لوگ اپنے پیاروں کی لاشوں کو دفنا رہے ہیں اور جس طرح اپنے پیاروں کے جانے سے وہ غم سے نڈھال ہیں وہ منظر دیکھا نہیں جاتا ہم تمام دنیا کے مسلمان  دعاگو ہیں کہ اللہ تعالی فلسطینی مسلمانوں کو اسرائیل کے اس ظلم و  بربریت سے نجات دے تاکہ یہاں کے مسلمان اپنے ملک میں ازادی کے ساتھ زندگی بسر کر سکیں  اور جو لوگ شہید ہو گئے ہیں اللہ تعالی ان کے درجات بلند کرے امین
یہ کس نے  ہم سے لہو کا خراج پھر مانگا
ابھی کےو سوئے تھے مقتل کو سرخ رو کر


Post a Comment

0 Comments