جھیل سیف الملوک پریوں کی سر زمین

 ہمارا پیارا ملک پاکستان قدرتی حسن سے مالا مال ہے خاص کر پاکستان کے شمالی علاقہ جات جیسے کاغان ناران مانسہرہ شوگران بالاکوٹ وغیرہ دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ نہ صرف پاکستان کے لوگ بلکہ دنیا کے مختلف  ممالک سے بھی  سیاح  ان علاقوں کا رخ کرتے ہیں ویسے تو کاغان میں نو خوبصورت جھیلیں ہیں مگر ان سب میں خوبصورت جھیل جھیل سیف الملوک ہے اس جھیل کو اپنی خوبصورتی اور سحر انگیزی کی وجہ سے پریوں کی سرزمین بھی کہا جاتا ہے بلند و بالا برف سے ڈھکے ہوئے پہاڑوں کے درمیان یہ خوبصورت جھیل واقعہ ہے یہ سطح سمندر سے 10 ہزار فٹ کی بلندی پر ہے اس کی شکل ایک پیالے کی مانند ہے کہا جاتا ہے کہ یہ جھیل حضرت عیسی کے زمانے سے قائم ہے اس کی گہرائی کا اندازہ اب تک نہیں لگائے جا سکا صدیوں سے یہ جھیل اسی طرح قائم ہے اس جھیل کے بارے میں مختلف باتیں مشہور ہیں ان میں کہاں تک سچائی ہے یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہاں جاتا ہے چاندنی راتوں میں پریاں اس جھیل پر اترتی ہیں گاتی اور رقص کرتی ہیں اس جھیل کے ارد گرد جو پہاڑ ہیں ان کو کوئی بھی اب تک سر نہیں کر سکا کیونکہ پریاں ان پہاڑوں پر رہتی ہیں

یہاں پر مصر کا شہزادہ جس کا نام سیف تھا اور کوہ قاف کی پری جس کا نام بدی الجمال تھا دونوں کی کہانی مشہور ہے مصر کے شہزادے کو سات دن تک ایک پری خواب میں نظر اتی رہی شہزادے نے نجومیوں  سے اس خواب کی تعبیر پوچھی تو ایک نجومی نے بتایا کہ جو پری اپ کے خواب میں نظر اتی ہے وہ کوہ قاف کی پری ہے اور اس کا نام بدیع الجمال ہے شہزادے نے پری کی تلاش میں جانے کا فیصلہ کیا اور پھر اخر 12 سال کے بعد وہ کاغان پہنچنے میں کامیاب ہو گیا جہاں پر اسے ایک بزرگ ملے شہزادے نے تمام معاملات اس بزرگ کو بتائے انہوں نے کہا کہ تمہیں اس پری تک جانے کے لیے 40 دن تک چلہ کاٹنا ھو گا اور شہزادے کو ایک سلیمانی ٹوپی بھی دی تاکہ جب شہزادہ اس جھیل کے پاس جائے تو جن اسے دیکھ نہ سکیں شہزادہ جب وظیفہ کرنے میں کامیاب ہو گیا تو  دو جن اس کے پاس ائے اور اسے سلمانی ٹوپی پہنا کر جھیل کے پاس لے گئے چاند کی 14 تاریخ کو شہزادی اس جھیل کے پاس ائی ہوئی تھی جب شہزادے نے پری کو دیکھا تو وہ اسے پہچان گیا شہزادہ اس کے پاس گیا اور اسے بتایا کہ اس نے کس طرح یہاں تک انے کے لیے کتنی مصیبتیں برداشت کی ہیں اب وہ پری کو اپنے ساتھ لے کے جانا چاہتا ہے پری اس کے ساتھ جانے پر رضامند ہو گئی یہ پری ایک دیو کی قید میں تھی جب بدی الجمال کی سہیلیوں نے دیوکو جا کر بتایا کہ پری  تو کہیں غائب ہو گئی ہے یہ سن کر دیو نے زور سے اپنا پاؤں برف پر مارا جس سے ہر طرف پانی کا طوفان اگیا شہزادہ اور پری دونوں نے اس طوفان سے بچنے کے لیے سرنگ میں پناہ لے لی جب دیو پری کو تلاش نہ کر سکا تو اس نے پہاڑ سے چھلانگ مار کر جان دے دی طوفان تھمنے کے بعد شہزادہ اور پری بدی و جمال مصر کی طرف روانہ ہو گئے جس جگہ شہزادے کی ملاقات پری سے ہوتی ہے اس جگہ کا نام ملوک تھا اس لیے یہ جھیل سیف الملوک کے نام سے مشہور ہو گئی

اگر ہم اسلام اباد سے کاغان کی طرف روانہ ہوں تو سب سے پہلے مانسہرہ کا علاقہ اتا ہے پھر بالاکوٹ کا اس کے بعد ناران اتا ہے پھر کاغان کا علاقہ اتا ہے اور کاغان سے جھیل سیف الملوک  جانے کے لیے جیپوں میں سفر کرنا پڑتا ہے اگرچہ جھیل تک جانے کا راستہ 11 کلومیٹر ہے مگر رش اور پتھریلا اور کچا راستہ ہونے کی وجہ سے وہاں تک پہنچنے میں گھنٹہ لگ جاتا ہے جہاں پر جیپیں  رکتی ہیں وہاں پر اگے جانے کے لیے گھوڑے کھڑے ہوتے ہیں جھیل تک پہنچنے کے لیے ان گھوڑوں پر بھی جایا جاتا ہے اور پیدل بھی چلے جاتے ہیں راستے میں کھانے پینے کی چیزوں کی دکانیں ہیں جہاں پر پکوڑے سموسے اور کھانے کی دوسری اشیاء بھی مل جاتی ہیں جیپ کے دوسرے کنارے پر جانے کے لیے کشتیاں بھی ہیں جب جب اس جھیل تک پہنچتے ہیں تو اس کی بے مثال خوبصورتی اور سحر انگریزی دیکھ کر منہ سے خود بخود سبحان اللہ کے الفاظ نکلتے ہیں اور لگتا ہے راستے کی تھکاوٹ اس خوبصورت جھیل کو دیکھ کر ختم ھو گئ ہے اگست کے مہینے میں بھی یہاں پر جھیل کے ارد گرد اور پہاڑوں پر برف جمی ہوتی ہے اور جب سورج کی کرنیں ان پہاڑوں پر سے جھانکتی ہوئی جھیل پر پڑتی ہیں تو یہ منظر بہت خوبصورت لگتا ہے مغرب کے وقت جھیل کو لوگوں سے خالی کروا لیا جاتا ہے جھیل سے واپسی پر ایسا  محسوس ہوتا ہے جیسے جھیل کی خوبصورتی اور سحر انگریزی لوگوں کو اپنی طرف کھینچ رہی ہے جھیل سے واپسی کے سفر میں بھی گھوڑوں پر بھی سفر کیا جاتا ہے اور سیڑھیاں بھی ہیں جن کی تعداد بہت زیادہ ہے اور یہ سیڑھیاں چڑھتے چڑھتے سانس پھول جاتا ہے مگر اس جھیل کی بے مثال خوبصورتی دیکھ کر بار بار انے کو دل کرتا ہے

Post a Comment

0 Comments