تین مچھلیوں کی کہانی

 تین مچھلیوں کی  کہانی

ایک دریا کے پاس چند گھڑوں میں پانی جمع تھا شکاری دریا پر مچھلی پکڑنے آئے تو گھڑے کی مچھلیاں بھی دیکھیں انہوں نے گھڑے پر کھڑے ہو کر کہا کل اسی جگہ ہاتھ صاف ہوگا ایک مضبوط جال لائیں گے اور تمام مچھلیاں پکڑ کر لے جائیں گے اس گھڑے میں تین مچھلیاں تھی ایک بڑی سیانی دوسری درمیانی عقل کی اور تیسری بالکل بے وقوف عقلمند مچھلی نے کہا بہنوں تم نے شکاریوں کی بات سنی میرا مشورہ ہے ہم راتوں رات گھڑے سے نکل کر گرتی پڑتی دریا میں پہنچ جائیں نیم عاقل مچھلی بولی میں نے سنا ہوا ہے کہ وطن کی محبت جزو ایمان ھے میں یہیں جیوں گی اور یہی پر مروں گی عقلمند مچھلی نے کہا تم نے غلط فہمی سے اس عارضی جگہ کو اپنا وطن سمجھ لیا ھے ہمارا اصلی گھر تو دریا ہے 

ژ سیلاب نے ہم کو اپنے اصل گھر سے جدا کر دیا چلو اپنے وطن کی طرف ہم کو وہیں پر پناہ مل سکتی ہے 

احمق  مچھلی بولی مجھے صیاد نہیں پکڑ سکتا مجھے ان سب کے گھات معلوم ہے میں تہ میں چھپ کر جان بچا لوں گی عقل مند مچھلی ان دونوں کو چھوڑ کر دریا کی طرف روانہ ہو گئی پانی سے باہر نکل کر اس کا دم گھٹنے لگا مگر اس نے اس عارضی تکلیف کی پرواہ نہ کی وہ سمجھ رہی تھی مادر وطن اسے جلد ہی اپنی محبت بھری گود میں لے لے گی بس وہ تڑپتی اور پھڑکتی ہوئی دریا میں جا پہنچی دوسری اور تیسری احمق مچھلی کو کوئی تدبیر نہ سوجھی اور وہ شکاریوں کے ہاتھوں میں تڑپ تڑپ کر مر گئی دم توڑتے انھیں اپنی بے وقوفی کا پتہ چلا مگر اب پچھتانا بے سود تھا  

جو شخص نفس کو عقل کے تابع رکھے اور انجام کار سمجھ جائے وہ عاقل مچھلی کی طرح ہوتا ہے جس نے سوچ بچار سے کام لیا اور اخر بچ گئی جو شخص نادان مچھلی کی طرح تمام عمر غفلت میں ہوتے ہیں وہ شیطان کے دام میں پھنس کر ہلاک ہو جاتا ہے جو لوگ اس دنیا کو اپنا وطن سمجھے ہوئے ہیں وہ بے وقوف مچھلی کی طرح ہیں مومن کا اصل وطن جنت الفروس ہے وہ اس جسم خاکی کو بھی روح کا قیدی سمجھتا ہے اور اسی اشتیاق میں رہتا ہے کہ کب اس قید سے جان چھٹے اور ازادی کے مزے لے اسی طرح حب الوطنی کا مسئلہ ہے انسان کو اپنا وطن پہچانا چاہیے اس کی پہچان اس کے وطن ہی سے ہوتی ہے

Post a Comment

0 Comments